EN हिंदी
پھر راہ دکھا مجھ کو اے مشرب رندانہ | شیح شیری
phir rah dikha mujhko ai mashrab-e-rindana

غزل

پھر راہ دکھا مجھ کو اے مشرب رندانہ

رضا جونپوری

;

پھر راہ دکھا مجھ کو اے مشرب رندانہ
کچھ بحث نہیں اس سے کعبہ ہے کہ بت خانہ

خم ہے نہ صبوحی ہے شیشہ ہے نہ پیمانہ
کیا جانے کہاں غم ہے تابانیٔ میخانہ

اس طرح بھی ہوتی ہے تشہیر وفا اکثر
پھرتی ہے صبا لے کر خاکستر پروانہ

کی وسعت صحرا کی قدموں نے پذیرائی
مجھ سا نہ کوئی ہوگا شائستۂ ویرانہ

ہر رند بلاکش پر گرتی ہے سر محفل
برق نگۂ ساقی پیمانہ بہ پیمانہ

عرفان طلب کہئے یا ترک طلب اس کو
منزل کا شناسا بھی منزل سے ہے بیگانہ

کچھ خار چمن کا بھی ہو ذکر چمن سازو
غنچوں کا بیاں تا کے افسانہ در افسانہ

فرزانگئی دل بھی کچھ چاہئے وحشت میں
دیوانہ سر محفل بن جائے نہ دیوانہ

تھی شمع فروزاں کی ترغیب جگر سوزی
یا آگ میں خود اپنی جل اٹھا ہے پروانہ

اسرار دو عالم کے کھلتے ہیں رضاؔ دل پر
تکوین ازل کا ہے محرم دل دیوانہ