پھر قصۂ شب لکھ دینے کے یہ دل حالات بنائے ہے
ہر شعر ہمارا آخر کو تیری ہی بات بنائے ہے
تم کو ہے بہت انکار تو تم بھی اس کی طرف جا کر دیکھو
وہ شخص اماوس رات کو کیسے چاندنی رات بنائے ہے
اب خواب میں بھی اس ظالم کو بس ہجر کا سودا رہتا ہے
اے جذبۂ دل تو کس کے لیے یہ پھول اور پات بنائے ہے
کیا ہوش و خرد کیا حرف و نوا سب اپنے لیے بے کار ہوئے
قرطاس نظر پر تنہائی بیتے لمحات بنائے ہے
ہر بار وہی ہجراں ہجراں کا شور مچانے والا دل
اپنی ہی کرے ہے رشتۂ غم تیرے ہی سات بنائے ہے
کیا جانیے اب کے موسم میں کب وقت کے جی میں کیا آئے
کس کی اوقات بگاڑے ہے کس کی اوقات بنائے ہے
یہ تیرا دوانہ رات گئے معلوم نہیں کیوں پہروں تک
آنسو کی لکیروں سے کتنے نقش جذبات بنائے ہے
غزل
پھر قصۂ شب لکھ دینے کے یہ دل حالات بنائے ہے
تالیف حیدر