پھر مجھے لکھنا جو وصف روئے جاناں ہو گیا
واجب اس جا پر قلم کو سر جھکانا ہو گیا
سرکشی اتنی نہیں ظالم ہے او زلف سیہ
بس کہ تاریک اپنی آنکھوں میں زمانہ ہو گیا
دھیان آیا جس گھڑی اس کے دہان تنگ کا
ہو گیا دم بند مشکل لب ہلانا ہو گیا
اے ازل جلدی رہائی دے نہ بس تاخیر کر
خانۂ تن بھی مجھے اب قید خانہ ہو گیا
آج تک آئینہ وش حیران ہے اس فکر میں
کب یہاں آیا سکندر کب روانہ ہو گیا
دولت دنیا نہ کام آئے گی کچھ بھی بعد مرگ
ہے زمیں میں خاک قاروں کا خزانہ ہو گیا
بات کرنے میں جو لب اس کے ہوئے زیر و زبر
ایک ساعت میں تہہ و بالا زمانہ ہو گیا
دیکھ لی رفتار اس گل کی چمن میں کیا صبا
سرو کو مشکل قدم آگے بڑھانا ہو گیا
جان دی آخر قفس میں عندلیب زار نے
مژدہ ہے صیاد ویراں آشیانہ ہو گیا
زندہ کر دیتا ہے اک دم میں یہ عیسائے نفس
کھیل اس کو گویا مردے کو جلانا ہو گیا
توسن عمر رواں دم بھر نہیں رکتا رساؔ
ہر نفس گویا اسی کا تازیانہ ہو گیا
غزل
پھر مجھے لکھنا جو وصف روئے جاناں ہو گیا
بھارتیندو ہریش چندر