پھر مری آنکھ تری یاد سے بھر آئی ہے
پھر تصور میں وہی جلوۂ زیبائی ہے
دشت غربت میں وہی عالم تنہائی ہے
سر میں سودا ہے ترا اور ترا سودائی ہے
کیا ارادہ ہے مری زیست کا میں کیا جانوں
کشتیٔ عمر مری موت سے ٹکرائی ہے
الفت ساقیٔ مہوش کے تصور میں شراب
آج ساغر میں پری بن کے اتر آئی ہے
آئنہ دیکھ کے للہ نہ حیراں ہوں آپ
اس میں مستور جو افسانۂ رعنائی ہے
ایک ہنگامۂ محشر ہے بپا گلشن میں
پھر سے خطرے میں کوئی عہد شکیبائی ہے
آتے ہیں ضبط کی پرسش کے لئے وہ شاید
پھر سے جنبش میں مرا ذوق تماشائی ہے
غزل
پھر مری آنکھ تری یاد سے بھر آئی ہے
شیو چرن داس گوئل ضبط