EN हिंदी
پھر لطف خلش دینے لگی یاد کسی کی | شیح شیری
phir lutf-e-KHalish dene lagi yaad kisi ki

غزل

پھر لطف خلش دینے لگی یاد کسی کی

حفیظ جالندھری

;

پھر لطف خلش دینے لگی یاد کسی کی
پھر بھول گئی یاد کو بیداد کسی کی

پھر رنج و الم کو ہے کسی کا یہ اشارہ
اجڑی ہوئی بستی کرو آباد کسی کی

پھر خط کا جواب ایک وہی طنز کا مصرع
مجبور ہے کیوں فطرت آزاد کسی کی

پھر دے کے خوشی ہم اسے ناشاد کریں کیوں
غم ہی سے طبیعت ہے اگر شاد کسی کی

پھر پند و نصیحت کے لیے آنے لگے دوست
وہ دوست جو کرتے نہیں امداد کسی کی

پھر شہر میں چرچا ہے نئی سنگ زنی کا
اخبار میں پھر درج ہے روداد کسی کی

پھر باب اثر کا کوئی رستہ نہیں ملتا
پھر بھٹکی ہوئی پھرتی ہے فریاد کسی کی

پھر خاک اڑاتے ہوئے پھرتے ہیں بگولے
پھر دشت میں مٹی ہوئی برباد کسی کی

پھر میں بھی کروں کیوں نہ حفیظؔ اس پہ تسلط
جاگیر نہیں طبع خدا داد کسی کی