پھر لہلہا اٹھا سمے آموں پہ بور کا
جانے سکھی کب آئے مسافر وہ دور کا
اس گاؤں کے نشیب میں بہتی ہے اک ندی
ندی پہ ایک پیڑ جھکا ہے کھجور کا
نیلم سی مرگ نین نگہ دل کے آر پار
جیون کے ارد گرد کرن کنڈ نور کا
اک پل ملاپ پھر کڑے کڑوے کٹھن ویوگ
مقصد تھا بس یہی ترے میرے ظہور کا
پکی سڑک کے داہنے قبریں کنواں وہ گاؤں
گاؤں کی اور چھور سماں سیم تھور کا
آدرش من میں چاہ کا شردھا نباہ کی
آنند اس کے مکھ پہ مقدس غرور کا
کچھ رات اداس کچھ کٹے جنموں جگوں کی پیاس
کچھ تیرے میرے جسم میں سودا فتور کا
تیکھے طراز زاویے نٹ کھٹ نچنت انگ
سندر سریر کانچ کی ترشی سطور کا
یادیں وہ دور دیس وہ گھر اور وہ سامنے
سیمیں بدن سیاہ لباس ایک حور کا
غزل
پھر لہلہا اٹھا سمے آموں پہ بور کا
ناصر شہزاد