پھر کوئی شکل نظر آنے لگی پانی پر
سخت مشکل میں ہوں اس طرح کی آسانی پر
اس کو پروا ہی نہیں ہے کہ وہ کس حال میں ہے
میں ہی محجوب ہوا خواب کی عریانی پر
کرتا رہتا ہوں میں اس بت کی پرستش ہمہ وقت
پھر بھی شک ہے اسے اس جذبۂ ایمانی پر
اک صدا ہے کہیں راتوں میں سفر کرتی ہوئی
اک ہوا ہے کہیں آئی ہوئی جولانی پر
کوئی رکتا ہوا دریا مرے قدموں میں کہیں
کوئی جھکتا ہوا سورج مری پیشانی پر
وہی مانوس تھپیڑے تھے مرے چاروں طرف
مجھے حیرت نہ ہوئی دھوپ کی تابانی پر
واپسی پر جو لگے ہیں مجھے اپنے جیسے
خوش ہوا ہوں در و دیوار کی ویرانی پر
ایک دن صبح جو اٹھیں تو یہ دنیا ہی نہ ہو
ہے مدار اب کسی ایسی ہی خوش امکانی پر
شعر ہوتے ہیں ظفرؔ لطف سخن سے خالی
داد ملتی ہے مجھے اب تو خوش الحانی پر
غزل
پھر کوئی شکل نظر آنے لگی پانی پر
ظفر اقبال