پھر کوئی آ رہا ہے دل کے قریب
داغ تازہ کھلا ہے دل کے قریب
پھر کوئی یاد سایہ افگن ہے
دھندلی دھندلی فضا ہے دل کے قریب
پھر کوئی تازہ واردات ہوئی
جمگھٹا سا لگا ہے دل کے قریب
آج بھی چین سے نہ سوئیے گا
پھر کہیں رت جگا ہے دل کے قریب
کل کھلے تھے یہاں نشاط کے پھول
اب دھواں اٹھ رہا ہے دل کے قریب
غزل
پھر کوئی آ رہا ہے دل کے قریب
صفدر میر