EN हिंदी
پھر کسی حادثے کا در کھولے | شیح شیری
phir kisi hadse ka dar khole

غزل

پھر کسی حادثے کا در کھولے

اسناتھ کنول

;

پھر کسی حادثے کا در کھولے
پہلے پرواز کو وہ پر کھولے

جیسے جنگل میں رات اتری ہو
یوں اداسی ملی ہے سر کھولے

پہلے تقدیر سے نمٹ آئے
پھر وہ اپنے سبھی ہنر کھولے

منزلوں نے وقار بخشا ہے
راستے چل پڑے سفر کھولے

جو سمجھتا ہے زندگی کے رموز
موت کا در وہ بے خطر کھولے

ہے کنولؔ خوف رائیگانی کا
کیسے اس زندگی کا ڈر کھولے