پھر کسی حادثے کا در کھولے
پہلے پرواز کو وہ پر کھولے
جیسے جنگل میں رات اتری ہو
یوں اداسی ملی ہے سر کھولے
پہلے تقدیر سے نمٹ آئے
پھر وہ اپنے سبھی ہنر کھولے
منزلوں نے وقار بخشا ہے
راستے چل پڑے سفر کھولے
جو سمجھتا ہے زندگی کے رموز
موت کا در وہ بے خطر کھولے
ہے کنولؔ خوف رائیگانی کا
کیسے اس زندگی کا ڈر کھولے
غزل
پھر کسی حادثے کا در کھولے
اسناتھ کنول