پھر کے جو وہ شوخ نظر کر گیا
تیر سا کچھ دل سے گزر کر گیا
خاک کا سا ڈھیر سر رہ ہوں میں
قافلۂ عمر سفر کر گیا
خلد بریں اس کی ہے واں بود و باش
یاں کسی دل بیچ جو گھر کر گیا
چھپ کے ترے کوچہ سے گزرا میں لیک
نالہ اک عالم کو خبر کر گیا
جوں شرر کاغذ آتش زدہ
شام غم اپنی میں سحر کر گیا
تا بہ فلک نالہ تو پہنچا تھا رات
میں ہی کچھ اللہ کا ڈر کر گیا
پوچھ نہ قائمؔ کی کٹی کیونکہ عمر
جوں ہوا یک چند بسر کر گیا
غزل
پھر کے جو وہ شوخ نظر کر گیا
قائم چاندپوری