پھر جو کٹتی نہیں اس رات سے خوف آتا ہے
سو ہمیں شام ملاقات سے خوف آتا ہے
مجھ کو ہی پھونک نہ ڈالیں کہیں یہ لفظ مرے
اب تو اپنے ہی کمالات سے خوف آتا ہے
کٹ ہی جاتا ہے سفر سہل ہو یا مشکل ہو
پھر بھی ہر بار شروعات سے خوف آتا ہے
وہم کی گرد میں لپٹے ہیں سوال اور ہمیں
کبھی نفی کبھی اثبات سے خوف آتا ہے
ایسے ٹھہرے ہوئے ماحول میں رحمانؔ حفیظ
ان گزرتے ہوئے لمحات سے خوف آتا ہے
غزل
پھر جو کٹتی نہیں اس رات سے خوف آتا ہے
رحمان حفیظ