EN हिंदी
پھر جو کٹتی نہیں اس رات سے خوف آتا ہے | شیح شیری
phir jo kaTti nahin us raat se KHauf aata hai

غزل

پھر جو کٹتی نہیں اس رات سے خوف آتا ہے

رحمان حفیظ

;

پھر جو کٹتی نہیں اس رات سے خوف آتا ہے
سو ہمیں شام ملاقات سے خوف آتا ہے

مجھ کو ہی پھونک نہ ڈالیں کہیں یہ لفظ مرے
اب تو اپنے ہی کمالات سے خوف آتا ہے

کٹ ہی جاتا ہے سفر سہل ہو یا مشکل ہو
پھر بھی ہر بار شروعات سے خوف آتا ہے

وہم کی گرد میں لپٹے ہیں سوال اور ہمیں
کبھی نفی کبھی اثبات سے خوف آتا ہے

ایسے ٹھہرے ہوئے ماحول میں رحمانؔ حفیظ
ان گزرتے ہوئے لمحات سے خوف آتا ہے