پھر اضطراب شوق میں غم سے مفر کہاں
وہ حسن التفات وہ حسن نظر کہاں
تاریکیٔ حیات سے گھبرا گیا ہے جی
دیکھیں شب فراق کی پھر ہو سحر کہاں
تیرے بغیر محفل دل بھی اداس ہے
اے حسن نا شناس تجھے یہ خبر کہاں
اب تک سمجھ رہا تھا جسے تیری رہ گزر
تھا اک فریب شوق تری رہ گزر کہاں
عرصہ ہوا کہ بزم تمنا اجڑ چکی
پہلی سی اب وہ رونق شام و سحر کہاں
جلووں کی تاب لا نہ سکی دل کی آنکھ بھی
پھر دیکھے کس طرح کوئی تاب نظر کہاں
اک چشم لطف کا ہے تری منتظر کلیمؔ
ورنہ جبین شوق کہاں سنگ در کہاں
غزل
پھر اضطراب شوق میں غم سے مفر کہاں
کلیم سہسرامی