پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنان خطۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر
روکش سطح چرخ مینائی
سبزہ کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی
سبزہ و گل کے دیکھنے کے لیے
چشم نرگس کو دی ہے بینائی
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی
کیوں نہ دنیا کو ہو خوشی غالبؔ
شاہ دیں دار نے شفا پائی
غزل
پھر اس انداز سے بہار آئی
مرزا غالب