پھر حریف بہار ہو بیٹھے
جانے کس کس کو آج رو بیٹھے
تھی مگر اتنی رائیگاں بھی نہ تھی
آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے
تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے
عشق کی آبرو ڈبو بیٹھے
ساری دنیا سے دور ہو جائے
جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے
نہ گئی تیری بے رخی نہ گئی
ہم تری آرزو بھی کھو بیٹھے
فیضؔ ہوتا رہے جو ہونا ہے
شعر لکھتے رہا کرو بیٹھے
غزل
پھر حریف بہار ہو بیٹھے
فیض احمد فیض