EN हिंदी
پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی | شیح شیری
phir gai aap ki do din mein tabiat kaisi

غزل

پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی

اکبر الہ آبادی

;

پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی
یہ وفا کیسی تھی صاحب یہ مروت کیسی

دوست احباب سے ہنس بول کے کٹ جائے گی رات
رند آزاد ہیں ہم کو شب فرقت کیسی

جس حسیں سے ہوئی الفت وہی معشوق اپنا
عشق کس چیز کو کہتے ہیں طبیعت کیسی

ہے جو قسمت میں وہی ہوگا نہ کچھ کم نہ سوا
آرزو کہتے ہیں کس چیز کو حسرت کیسی

حال کھلتا نہیں کچھ دل کے دھڑکنے کا مجھے
آج رہ رہ کے بھر آتی ہے طبیعت کیسی

کوچۂ یار میں جاتا تو نظارہ کرتا
قیس آوارہ ہے جنگل میں یہ وحشت کیسی