EN हिंदी
پھر فکر سخن میں کر رہا ہوں | شیح شیری
phir fikr-e-suKHan main kar raha hun

غزل

پھر فکر سخن میں کر رہا ہوں

رفعت سروش

;

پھر فکر سخن میں کر رہا ہوں
افلاک سے میں گزر رہا ہوں

لفظوں کے کھلا رہا ہوں غنچے
ظلمت میں ستارے بھر رہا ہوں

یہ شمس و قمر ہیں دیکھے بھالے
ان سب کا میں ہم سفر رہا ہوں

مٹی سے جنم جنم کا رشتہ
دھرتی کا سنگار کر رہا ہوں

جنت مری فکر کی ہے معراج
دوزخ سے تو میں گزر رہا ہوں

دنیا کے قصیدے میں نے لکھے
بس اپنا ہی نوحہ گر رہا ہوں

سب کی ہے خبر سروشؔ لیکن
میں خود سے ہی بے خبر رہا ہوں