EN हिंदी
پھر چھلکتا ہے جام وحشت کا | شیح شیری
phir chhalakta hai jam wahshat ka

غزل

پھر چھلکتا ہے جام وحشت کا

کامران ندیم

;

پھر چھلکتا ہے جام وحشت کا
شاہ خوباں سلام وحشت کا

ایک چشم غزال کرتی ہے
چار سو اہتمام وحشت کا

وہ گراں گوش ہو ہمہ تن گوش
تو سناؤں کلام وحشت کا

چاک ہے اب ترا گریباں بھی
دیکھ لے انتقام وحشت کا

موج حیرت سفر میں رکھتی ہے
ڈھونڈھتا ہوں قیام وحشت کا

آج تو باغباں نے گلشن میں
اک بچھایا ہے دام وحشت کا

اک طرف موجہ سکوں ہے ندیمؔ
اک جانب خرام وحشت کا