پھر بھیانک تیرگی میں آ گئے
ہم گجر بجنے سے دھوکا کھا گئے
ہائے خوابوں کی خیاباں سازیاں
آنکھ کیا کھولی چمن مرجھا گئے
کون تھے آخر جو منزل کے قریب
آئنے کی چادریں پھیلا گئے
کس تجلی کا دیا ہم کو فریب
کس دھندلکے میں ہمیں پہنچا گئے
ان کا آنا حشر سے کچھ کم نہ تھا
اور جب پلٹے قیامت ڈھا گئے
اک پہیلی کا ہمیں دے کر جواب
اک پہیلی بن کے ہر سو چھا گئے
پھر وہی اختر شماری کا نظام
ہم تو اس تکرار سے اکتا گئے
رہنماؤ رات ابھی باقی سہی
آج سیارے اگر ٹکرا گئے
کیا رسا نکلی دعائے اجتہاد
وہ چھپاتے ہی رہے ہم پا گئے
بس وہی معمار فردا ہیں ندیمؔ
جن کو میرے ولولے راس آ گئے
غزل
پھر بھیانک تیرگی میں آ گئے
احمد ندیم قاسمی