EN हिंदी
پھر اندھیری راہ میں کوئی دیا مل جائے گا | شیح شیری
phir andheri rah mein koi diya mil jaega

غزل

پھر اندھیری راہ میں کوئی دیا مل جائے گا

ہدایت اللہ خان شمسی

;

پھر اندھیری راہ میں کوئی دیا مل جائے گا
تم اکیلے گھر سے نکلو قافلہ مل جائے گا

تنگ ظرفی خشک کر ڈالے گی دریا دیکھ لے
ہم کو کیا کوئی سمندر دوسرا مل جائے گا

کر رہا ہوں میں تعاقب گردش ایام کا
اک نہ اک دن زندگی تیرا پتا مل جائے گا

آندھیو آ جاؤ کھل کر میں چراغ طور ہوں
مجھ سے ٹکرانے کا تم کو بھی مزہ مل جائے گا

تنگ مت کر اے زمیں کر دیں اشارہ اک اگر
آسمانوں سے بھی ہم کو آسرا مل جائے گا

سنگ فرقت مار کر مت جاؤ مجھ کو چھوڑ کر
دل کا شیشہ توڑنے سے یار کیا مل جائے گا

ساحلوں پر رہنے والو اک ذرا آواز دو
غرق ہوتی کشتیوں کو حوصلہ مل جائے گا