پھر آس پاس سے دل ہو چلا ہے میرا اداس
پھر ایک جام کہ برجا ہوں جس سے ہوش حواس
ہزار رنگ سہی پر نہیں ذرا بو باس
ہوائے صحن چمن ہم کو آئے کیسے راس
ستارے اب بھی چمکتے ہیں آسماں پہ مگر
نہیں ہیں شومئ قسمت سے ہم ستارہ شناس
کھلے ہیں پھول ہزاروں چمن کے دامن پر
نوا گران چمن کو مگر نہیں احساس
دل و جگر میں مروت سے پڑ گئے ناسور
ہمیں نہیں ہے مگر اس کے پھل سے پھر بھی یاس
گھرے ہوئے ہیں اگر برق و باد و باراں میں
تو کیا ہوا کہ کنارے کی ہے ابھی تک آس
جنوں کو اپنے چھپائیں تو کس طرح یارو
کہ تار تار ہے اس شغل پاک کا عکاس
جو بے وفائی گل سے شکستہ خاطر ہو
اسے بتاؤ کہ ہے باوفا تر اس سے گھاس
میں اس شراب محبت سے تنگ ہوں عرشیؔ
کہ جتنا پیجیے بڑھتی ہے اور اتنی پیاس
غزل
پھر آس پاس سے دل ہو چلا ہے میرا اداس
عرشی رامپوری