پھینکیں بھی یہ لباس بدن کا اتار کے
کب تک رہیں گرفت میں لیل و نہار کے
تسخیر کائنات و حوادث کے باوجود
حد پا سکے نہ جبر و غم و اختیار کے
بکھرا ہمیشہ ریگ کی صورت ہواؤں میں
ٹھہرا کبھی نہ مثل کسی کوہسار کے
تنہا کھڑا ہوا ہوں میں دشت خیال میں
خاموش ہو چکا بھی سمندر پکار کے
تنویرؔ آگہی دیں کہاں تک حیات کو
بے نور ہو چلے ہیں دیے اعتبار کے
غزل
پھینکیں بھی یہ لباس بدن کا اتار کے
تنویر سامانی