EN हिंदी
پھینکے ہوئے بے کار کھلونے کی طرح ہوں | شیح شیری
phenke hue be-kar khilaune ki tarah hun

غزل

پھینکے ہوئے بے کار کھلونے کی طرح ہوں

سعید احمد اختر

;

پھینکے ہوئے بے کار کھلونے کی طرح ہوں
میں باغ کے اجڑے ہوئے گوشے کی طرح ہوں

تو دل میں اترتی ہوئی خوشبو کی طرح ہے
میں جسم سے اترے ہوئے کپڑے کی طرح ہوں

کچھ اور بھی دن مجھ کو سمجھنے میں لگیں گے
میں خواب میں دیکھے ہوئے رستے کی طرح ہوں

سایہ سا یہ کس چیز کا ہے میرے وطن پر
میں کیوں کسی سہمے ہوئے قصے کی طرح ہوں

میں ماں ہوں ستائی ہوئی حد درجہ بہو کی
اور بیٹے پہ آئے ہوئے غصے کی طرح ہوں

ہو جائیں کبھی جا کے وہیں سندھ کنارے
باتیں کوئی دو چار جو پہلے کی طرح ہوں

اب تو کسی مہکار کی یادوں کا سفر ہے
اور میں کسی بھولے ہوئے قصے کی طرح ہوں

جس میں کوئی در ہے نہ دریچہ نہ مکیں ہے
اس گھر پہ لگائے ہوئے پہرے کی طرح ہوں

کیا ہوگی تلافی مرے نقصان کی اخترؔ
میں قید میں گزرے ہوئے عرصے کی طرح ہوں