پھل آتے ہیں پھول ٹوٹتے ہیں
خردوں سے بزرگ چھوٹتے ہیں
کھلتی نہیں گل کی بد مزاجی
غنچے نہیں منہ سے پھوٹتے ہیں
کرتے ہیں یہاں حسیں تاراج
نباش لحد میں لوٹتے ہیں
ہوتا ہے فراق جان و تن میں
بروں کے ملاپ چھوٹتے ہیں
اک بت سے معاملہ درپیش
پتھر سے نصیب پھوٹتے ہیں
آسیب ہیں گیسوان معشوق
کب ہم سے لپٹ کے چھوٹتے ہیں
دل لے کے وہ جان کے ہیں خواہاں
ہر پہر کے مجھی کو لوٹتے ہیں
ہر وقت ہے کوفت اپنے دل کو
رہ رہ کر سینہ کوٹتے ہیں
خط پڑھتا ہے میرا کیا کہوں کون
اغیار کی دید سے پھوٹتے ہیں
رونے دھونے سے فائدہ بحرؔ
کب سینے کے داغ چھوٹتے ہیں

غزل
پھل آتے ہیں پھول ٹوٹتے ہیں
امداد علی بحر