پھیلا ہوا ہے باغ میں ہر سمت نور صبح
بلبل کے چہچہوں سے ہے ظاہر سرور صبح
بیٹھے ہو تم جو چہرہ سے الٹے نقاب کو
پھیلا ہوا ہے چار طرف شب کو نور صبح
بد قسمتوں کو گر ہو میسر شب وصال
سورج غروب ہوتے ہی ظاہر ہو نور صبح
پو پھٹتے ہی ریاض جہاں خلد بن گیا
غلمان مہر ساتھ لئے آئی حور صبح
مرغ سحر عدو نہ موذن کی کچھ خطا
پرویںؔ شب وصال میں سب ہے فتور صبح
غزل
پھیلا ہوا ہے باغ میں ہر سمت نور صبح
پروین ام مشتاق