پھڑپھڑاتا ہوا پرندہ ہے
مان لو کہ دعا پرندہ ہے
اس کڑی دھوپ میں مرے ہم راہ
ریت آنسو ہوا پرندہ ہے
خواہشوں کا سفر نہیں رکتا
یہ عجب بھاگتا پرندہ ہے
جھیل سوکھی تو وہ پلٹ آیا
دل کے ہاتھوں مڑا پرندہ ہے
موت اس کو کہو بجا لیکن
اصل میں تو اڑا پرندہ ہے
آنے والی بہار ہے بابرؔ
میری چھت پر رکا پرندہ ہے
غزل
پھڑپھڑاتا ہوا پرندہ ہے
احمد سجاد بابر