پھاندتی پھرتی ہیں احساس کے جنگل روحیں
کب سکوں پائیں گی بھٹکی ہوئی بے کل روحیں
پا شکستہ ہیں شب و روز کے ویرانے میں
ڈھونڈتی ہیں کسے اس دشت میں پاگل روحیں
جب بھی اٹھتے ہیں نگاہوں سے غم جاں کے حجاب
دیکھ لیتی ہیں کسی شوخ کا آنچل روحیں
رونما ہو چمن دہر میں اے ابر نشاط
درد کی دھوپ میں سنولائی ہیں کومل روحیں
دل کے اجڑے ہوئے مندر کو بسانے کے لئے
لے کے آئی تھیں کسی یاد کی مشعل روحیں
رات سپنوں کی سبھا میں مرے ہم راہ رہیں
جب کھلی آنکھ ہوئیں آنکھ سے اوجھل روحیں
غزل
پھاندتی پھرتی ہیں احساس کے جنگل روحیں
حسن اختر جلیل