پیش جو آیا سر ساحل شب بتلایا
موج غم کو بھی مگر موج طرب بتلایا
ہے بتانے کی کوئی چیز بھلا نام و نسب
ہم نے پوچھا نہ کبھی نام و نسب بتلایا
رنگ محفل کا عجب ہو گیا جس دم اس نے
خامشی کو بھی مری حسن طلب بتلایا
دل کو دنیا سے سروکار کبھی تھا ہی نہیں
آنکھ نے بھی مگر اس رخ کو عجب بتلایا
یہ اداسی کا سبب پوچھنے والے اجملؔ
کیا کریں گے جو اداسی کا سبب بتلایا
غزل
پیش جو آیا سر ساحل شب بتلایا
اجمل سراج