پیش ادراک مری فکر کے شانے کھل جائیں
ہر طرف عالم امکاں کے بہانے کھل جائیں
تجھ پہ موقوف ہے دنیا کی تہی دامانی
تو جو کھل جائے تو عالم کے خزانے کھل جائیں
پھر سے آنکھوں کو مری نور بصیرت ہو عطا
اس صنم خانے میں پھر آئنہ خانے کھل جائیں
شمع ہستی ہوئی بیدار فلک سے کہہ دو
اژدہان شب ظلمت کے دہانے کھل جائیں
اب کوئی دست رفاقت نہ رکھے سینے پر
عین ممکن ہے کہ زخموں کے مہانے کھل جائیں
ادھ کھلی آنکھ میں رقصاں ہے غم مستقبل
بند ہو آنکھ تو گم گشتہ زمانے کھل جائیں
تو اگر فکر کی پرواز کو بخشے رفعت
کون جانے کہ کہاں کتنے ٹھکانے کھل جائیں
لب کشا ہوں تو بکھر جائیں فسانے کتنے
چپ جو ہو جاؤں تو اوراق پرانے کھل جائیں
اس عقیدت کو محبت سے بدل لے سالمؔ
کیا پتہ کب تری تسبیح کے دانے کھل جائیں
غزل
پیش ادراک مری فکر کے شانے کھل جائیں
سالم شجاع انصاری