پیڑ پر جانے کس کا دھیان پڑا
ایک پتھر کہیں سے آن پڑا
ایک ہجرت تو مجھ کو تھی درپیش
ہجر بھی اس کے درمیان پڑا
یہ شب تار تار میری ردا
یہ ستاروں کا سائبان پڑا
ایک پلڑے میں رکھ دیا تجھ کو
دوسرے میں تھا اک جہان پڑا
کیسی ٹھوکر لگی یہ سپنے میں
آنکھ پر کس کا یہ نشان پڑا
ایک مٹھی میں پھر زمیں سمٹی
ایک آنسو میں آسمان پڑا
زندگی یاد آ گئی مجھ کو
پھر تری سمت میرا دھیان پڑا
تو نے نام و نشاں دیا مجھ کو
میرا ہونا تھا بے نشان پڑا
گرتے رہتے ہیں اس میں شام و سحر
بھرتا رہتا ہے خاکدان پڑا
یہ ہے کشتی وجود کی جاناںؔ
یہ پھٹا دل کا بادبان پڑا

غزل
پیڑ پر جانے کس کا دھیان پڑا
جاناں ملک