پیڑ گرتا ہے تو جو اس پہ گزر ہوتی ہے
ایک سائے کے سوا کس کو خبر ہوتی ہے
حسن ہوتا ہے کسی شے کا کوئی اپنا ہی
اور پھر دیکھنے والے کی نظر ہوتی ہے
ہم نہیں تیرگی سے خوفزدہ ہونے کے
جانتے ہیں کہ ہر اک شب کی سحر ہوتی ہے
آپ نے اس کے فسانے ہی سنے ہوتے ہیں
اور اچانک یہ بلا آپ کے سر ہوتی ہے
میرے اشعار اس آواز کی ہیں گونج فقط
وہ اک آواز جو دل ٹوٹنے پر ہوتی ہے

غزل
پیڑ گرتا ہے تو جو اس پہ گزر ہوتی ہے
ترکش پردیپ