پیمبر میں نہیں عاشق ہوں جانی
رہے موسی ہی سے یہ لن ترانی
سلیماں ہم ہیں اے محبوب جانی
سمجھتے ہیں تجھے بلقیس ثانی
کھلا سودے میں ان زلفوں کے مر کر
پریشاں خواب تھی یہ زندگانی
یہ کیوں آتا ہے ان سے قد کشی کو
گڑی جاتی ہے سرو بوستانی
وہی دے گا کباب نرگسی بھی
جو دیتا ہے شراب ارغوانی
رنگا ہے عشق نے کس درد سر سے
ہمارا جامۂ تن زعفرانی
مسافر کی طرح رہ خانہ بر دوش
نہیں جائے اقامت دار فانی
ترے کوچہ کے مشتاقوں کے آگے
جہنم ہے بہشت آسمانی
وہ میکش ہوں دیا ہے قابلہ نے
جسے غسل شراب ارغوانی
یقیں ہے دیدۂ باریک بیں کو
کرے عینک طلب یہ ناتوانی
وہ خط ہے یادگار حسن رفتہ
وہ سبزہ ہے گلستاں کی نشانی
نکلتی منہ سے قاصد کے نہیں بات
مگر لایا ہے پیغام زبانی
یہ مشت خاک ہو مقبول درگاہ
صبا کی چاہتا ہوں مہربانی
لئے ہیں بوسۂ رخسارۂ صاف
پیا ہے ہم نے آئینہ کا پانی
سفیدی مو کی ہو کافور ہر چند
کوئی مٹتا ہے یہ داغ جوانی
نہ خوش ہو فربہی تن سے غافل
سبک کرتی ہے مردے کو گرانی
موے جو پیشتر مرنے سے وہ لوگ
کفن سمجھے قبائے زندگانی
جلاتی ہے دل آتشؔ طور کی طرح
کسی پردہ نشیں کی لن ترانی
غزل
پیمبر میں نہیں عاشق ہوں جانی
حیدر علی آتش