پیامی کامیاب آئے نہ آئے
خدا جانے جواب آئے نہ آئے
ترے غمزوں کو اپنے کام سے کام
کسی کے دل کو تاب آئے نہ آئے
اسے شرمائیں گے ذکر عدو پر
یہ قسمت ہے حجاب آئے نہ آئے
تم آؤ جب سوار تو سن ناز
قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے
شمار اپنی خطاؤں کا بتا دوں
تمہیں شاید حساب آئے نہ آئے
نئے خنجر سے مجھ کو ذبح کیجے
پھر ایسی آب و تاب آئے نہ آئے
شب وصل عدو تیری بلا سے
کسی مضطر کو خواب آئے نہ آئے
پیوں گا آج ساقی سیر ہو کر
میسر پھر شراب آئے نہ آئے
یہ جا کر پوچھ آ تو ان سے درباں
کہ وہ خانہ خراب آئے نہ آئے
نہ دیکھو داغؔ کا دیوان دیکھو
سمجھ میں یہ کتاب آئے نہ آئے
غزل
پیامی کامیاب آئے نہ آئے
داغؔ دہلوی