EN हिंदी
پیام یاس نہ دے اے نگاہ یار مجھے | شیح شیری
payam-e-yas na de ai nigah-e-yar mujhe

غزل

پیام یاس نہ دے اے نگاہ یار مجھے

مانی جائسی

;

پیام یاس نہ دے اے نگاہ یار مجھے
رکھ اضطراب کی خاطر امیدوار مجھے

نئے کرشمے دکھاتا ہے اعتبار مجھے
خزاں ہے عالم نیرنگیٔ بہار مجھے

وفور شوق سے آنکھوں میں روح کھچ آئی
پیام موت تھا وعدے کا اعتبار مجھے

نظر اٹھا کہ مری زندگی کہے لبیک
میں کھو نہ جاؤں کہیں اک ذرا پکار مجھے

جزا ہے غم کی تو مل جائے آج اے مانیؔ
کہ سو غموں کا ہے غم کل کا انتظار مجھے