پیام یاس نہ دے اے نگاہ یار مجھے
رکھ اضطراب کی خاطر امیدوار مجھے
نئے کرشمے دکھاتا ہے اعتبار مجھے
خزاں ہے عالم نیرنگیٔ بہار مجھے
وفور شوق سے آنکھوں میں روح کھچ آئی
پیام موت تھا وعدے کا اعتبار مجھے
نظر اٹھا کہ مری زندگی کہے لبیک
میں کھو نہ جاؤں کہیں اک ذرا پکار مجھے
جزا ہے غم کی تو مل جائے آج اے مانیؔ
کہ سو غموں کا ہے غم کل کا انتظار مجھے
غزل
پیام یاس نہ دے اے نگاہ یار مجھے
مانی جائسی