پتھروں سے دوستی کیا بھا گئی
اک ندی اپنی روانی کھا گئی
دیر تک قسمت پڑی سوتی رہی
دھوپ گھر کے بام و در تک آ گئی
اک کرن خوشبو کی صورت آئی اور
ناگہاں کمرہ مرا مہکا گئی
خود اجالوں کے لئے مانگی دعا
اپنی تاریکی سے شب گھبرا گئی
چاند اترا نور کی محفل میں جب
روشنی ہی روشنی پر چھا گئی
غزل
پتھروں سے دوستی کیا بھا گئی
نصرت مہدی