پتھر سے مکالمہ ہے جاری
دونوں ہی طرف ہے ہوشیاری
وحشت سے میں بھاگتا رہا ہوں
پھر مجھ پہ جنوں ہوا ہے طاری
درویش کو رکھ کے خاک پا میں
کرتا ہے زمانہ شہریاری
پتھر سے مجھے نہ چوٹ پہنچی
اک گل نے دیا ہے زخم کاری
شہری وطن عزیز کا ہوں
لیکن ہے شعار اشک باری
مذہب ہے مرا طریق ہندی
دیرینہ بتوں سے اپنی یاری
پایا ہے فروغ سیکولرازم
تلوار ہوئی ہے اب دو دھاری
گزرے ہوئے دن کا استعارہ
یہ مولوی اور یہ بھکاری
غزل
پتھر سے مکالمہ ہے جاری
جمال اویسی