EN हिंदी
پتھر پڑے ہوئے کہیں رستہ بنا ہوا | شیح شیری
patthar paDe hue kahin rasta bana hua

غزل

پتھر پڑے ہوئے کہیں رستہ بنا ہوا

راشد امین

;

پتھر پڑے ہوئے کہیں رستہ بنا ہوا
ہاتھوں میں تیرے گاؤں کا نقشہ بنا ہوا

آنکھوں کی آب جو کے کنارے کسی کا عکس
پانی میں لگ رہا ہے پرندہ بنا ہوا

صحرا کی گرم دھوپ میں باغ بہشت ہے
تنکوں سے تیرے ہاتھ کا پنکھا بنا ہوا

صندل کے عطر سے تری مہندی گندھی ہوئی
سونے کے تار سے مرا سہرا بنا ہوا

یادوں سے لے رہا ہوں حنائی مہک کا لطف
ٹیبل پہ رکھ کے لونگ کا قہوہ بنا ہوا

میلے میں ناچتی ہوئی جٹی کے رقص پر
یاروں کے درمیان ہے جھگڑا بنا ہوا