پتھر پانی ہو جاتے ہیں
لوگ کہانی ہو جاتے ہیں
نئے نئے چہرے والے بھی
بات پرانی ہو جاتے ہیں
عشق کی رت میں سارے بھکاری
راجا رانی ہو جاتے ہیں
شام سمے لو کے جھونکے بھی
پون سہانی ہو جاتے ہیں
سکھ کا موسم جب آتا ہے
جسم بھی پانی ہو جاتے ہیں
سوکھے پتے گئی رتوں کے
نئی نشانی ہو جاتے ہیں
ہم تو اس کی باتیں سن کر
پانی پانی ہو جاتے ہیں

غزل
پتھر پانی ہو جاتے ہیں
اسعد بدایونی