EN हिंदी
پتھر مجھے شرمندۂ گفتار نہ کر دے | شیح شیری
patthar mujhe sharminda-e-guftar na kar de

غزل

پتھر مجھے شرمندۂ گفتار نہ کر دے

مظفر وارثی

;

پتھر مجھے شرمندۂ گفتار نہ کر دے
اونچا مری آواز کو دیوار نہ کر دے

مجبور سخن کرتا ہے کیوں مجھ کو زمانہ
لہجہ مرے جذبات کا اظہار نہ کر دے

زنجیر سمجھ کر مجھے توڑا تو ہے تو نے
اب تجھ کو پریشاں مری جھنکار نہ کر دے

چلتا ہوں تو پڑتے ہیں قدم میرے ہوا پر
ڈرتا ہوں ہوا چلنے سے انکار نہ کر دے

رہ جاؤں نہ میں اپنے ہی قدموں سے کچل کر
پامال مجھے خود مری رفتار نہ کر دے

میں خود کو مٹا کر ترا شہکار بنا ہوں
نیلام مجھے تو سر بازار نہ کر دے

ہر سانس نئے زخم لگاتی ہے مظفرؔ
ٹکڑے مرے اک روز یہ تلوار نہ کر دے