پتھر کی قبا پہنے ملا جو بھی ملا ہے
ہر شخص یہاں سوچ کے صحرا میں کھڑا ہے
نے جام کھنکتے ہیں نہ کافی کے پیالے
دل شب کی صداؤں کا جہاں ڈھونڈ رہا ہے
سڑکوں پہ کرو دوڑتے پہیوں کا تعاقب
امڈی ہوئی آکاش پہ ساون کی گھٹا ہے
جاتے ہوئے گھر تم جو مجھے سونپ گئے تھے
وہ وقت مجھے چھوڑ کے بیگانہ ہوا ہے
تم پاس جو ہوتے تو فضا اور ہی ہوتی
موسم مرے پہلو سے ابھی اٹھ کے گیا ہے
ملبوس سے چھنتے ہوئے شاداب بدن نے
تہذیب خیالات کو آوارہ کیا ہے

غزل
پتھر کی قبا پہنے ملا جو بھی ملا ہے
زبیر رضوی