پتھر کے خدا پتھر کے صنم پتھر کے ہی انساں پائے ہیں
تم شہر محبت کہتے ہو ہم جان بچا کر آئے ہیں
بت خانہ سمجھتے ہو جس کو پوچھو نہ وہاں کیا حالت ہے
ہم لوگ وہیں سے لوٹے ہیں بس شکر کرو لوٹ آئے ہیں
ہم سوچ رہے ہیں مدت سے اب عمر گزاریں بھی تو کہاں
صحرا میں خوشی کے پھول نہیں شہروں میں غموں کے سائے ہیں
ہونٹوں پہ تبسم ہلکا سا آنکھوں میں نمی سی ہے فاکرؔ
ہم اہل محبت پر اکثر ایسے بھی زمانے آئے ہیں
غزل
پتھر کے خدا پتھر کے صنم پتھر کے ہی انساں پائے ہیں
سدرشن فاخر