پتھر ہو کہ فولاد ہو ڈرنے کا نہیں میں
اب صورت آئینہ بکھرنے کا نہیں میں
جو ذات کا میری ہے خلا چیز دگر ہے
جو بھر بھی گئے زخم تو بھرنے کا نہیں میں
دیکھیں نہ نظر بھر کے مجھے دیر تلک آپ
جو چڑھ گیا نظروں میں اترنے کا نہیں میں
کی بادہ کشی ترک معابد کے مقابل
اب اس سے زیادہ تو سدھرنے کا نہیں میں
دیدار ترا میرے لیے راحت جاں ہے
بے دیکھے تجھے جاں سے گزرنے کا نہیں میں
اب جرم محبت کی ملے کوئی بھی پاداش
تفتیش کے دوران مکرنے کا نہیں میں

غزل
پتھر ہو کہ فولاد ہو ڈرنے کا نہیں میں
محمد عابد علی عابد