پتہ ملا ہے وہ تھا میرا ہم سفر بہت دیر بعد جا کر
کہاں کہاں سے ملی ہے مجھ کو خبر بہت دیر بعد جا کر
میں مدتوں سقف زندگی پر کھڑے کھڑے تم کو دیکھ آیا
یہ تم بھی کیا ہو کہ آئے مجھ کو نظر بہت دیر بعد جا کر
مری تمنا ہے اب کے تم پھر ملو تو جی بھر کے مسکرائیں
کہ دیکھنا ہے یہ روشنی کا سفر بہت دیر بعد جا کر
مجھے بتاؤ میں کیوں نہ اس اٹھتی دھول کے ساتھ بیٹھ جاؤں
مجھے خبر ہے وہ آئے گا بام پر بہت دیر بعد جا کر
خراب موسم میں ہر شجر سے لرزتے پتوں نے کیا کہا تھا
کہ پھول آنے لگے ہیں اب شاخ پر بہت دیر بعد جا کر
قیامتوں کی طرح گزاریں گے یہ مہ و سال ہجرتوں کے
تمام ہوگا جدائیوں کا سفر بہت دیر بعد جا کر
مری غزل میں جب آئے جعفرؔ نظر انہیں معرکے ہنر کے
ہوئے مرے معترف سب اہل نظر بہت دیر بعد جا کر
غزل
پتہ ملا ہے وہ تھا میرا ہم سفر بہت دیر بعد جا کر
جعفر شیرازی