پس منظروں کے سامنے منظر ہی رہ نہ جائیں
سینوں کے راز سینوں کے اندر ہی رہ نہ جائیں
کہنے کی بات اور ہے کرنے کی بات اور
یعنی یہ سوچ لیجئے کہہ کر ہی رہ نہ جائیں
دیکھو وہی تو وقت نہیں آ رہا ہے پھر
پھر آج اپنے ساتھ بہتر ہی رہ نہ جائیں
اک دوسرے کو یہ جو ہڑپ کر رہے ہیں ہم
سوچو زمیں نہ ہو تو سمندر ہی رہ نہ جائیں
اس بار گر پڑی ہیں چھتیں بھی مکان کی
اس بار ہاتھ ہاتھ پہ دھر کر ہی رہ نہ جائیں
بھائی دعا کا شیش محل بھی ہے کوئی چیز
ہاتھوں میں بد دعاؤں کے پتھر ہی رہ نہ جائیں
کچھ کر کے اے نشاطؔ دکھاؤ وگرنہ پھر
افراسیاب و خضر و سکندر ہی رہ نہ جائیں
غزل
پس منظروں کے سامنے منظر ہی رہ نہ جائیں
ارتضی نشاط