پس توبہ حدیث مطرب و پیمانہ کہتے ہیں
یہ اک بھولا ہوا پر آج ہم افسانہ کہتے ہیں
کوئی خون تمنا ہو جھلک آتا ہے آنکھوں میں
اسی کو اتحاد بادہ و پیمانہ کہتے ہیں
تباہی دل کی دیکھی ہے جو ہم نے اپنی آنکھوں سے
ہو اب کیسی ہی بستی ہم اسے ویرانہ کہتے ہیں
فنا ہونے میں سوز شمع کی منت کشی کیسی
جلے جو آگ میں اپنی اسے پروانہ کہتے ہیں
جفا پر صبر سیکھا ہے وفا پر جان جاتی ہے
یہی ہے اور کس کو تہمت مردانہ کہتے ہیں
تمہاری زلف پیچاں میں رہا کیوں کر دل وحشی
تڑا لے جائے جو زنجیر اسے دیوانہ کہتے ہیں
معاذ اللہ تیرا حسن تیری بزم عشرت میں
یہ وہ محفل ہے جس میں شمع کو پروانہ کہتے ہیں
یہاں تو جان تک دے دی نظرؔ پاداش الفت میں
مگر بیداد گر باقی ابھی جرمانہ کہتے ہیں
غزل
پس توبہ حدیث مطرب و پیمانہ کہتے ہیں
منشی نوبت رائے نظر لکھنوی