EN हिंदी
پس سکوت سخن کو خبر بنایا جائے | شیح شیری
pas-e-sukut suKHan ko KHabar banaya jae

غزل

پس سکوت سخن کو خبر بنایا جائے

عرفان وحید

;

پس سکوت سخن کو خبر بنایا جائے
فصیل حرف میں معنی کا در بنایا جائے

حساب سود و زیاں ہو چکا بہت اب کے
وفور شوق کو عرض ہنر بنایا جائے

لگن اڑان کی دل میں ہنوز باقی ہے
کٹے پروں ہی کو اب شاہ پر بنایا جائے

کسی پڑاؤ پہ پہنچیں گے جب تو سوچیں گے
ابھی سے کیا کوئی زاد سفر بنایا جائے

فراز دار پہ کر کے بلند آخر شب
مرے ہی سر کو نشان سحر بنایا جائے

بہت طویل ہوا سلسلہ رقابت کا
کبھی ملو تو اسے مختصر بنایا جائے

قدم قدم پہ ہے بستی میں وحشیوں کا ہجوم
چلو کہیں کسی صحرا میں گھر بنایا جائے

ضمیر نوع بشر کب سے ہو چکا رخصت
نئے خمیر سے تازہ بشر بنایا جائے

مفر محال ہے قید مکاں سے جب عرفاںؔ
تو کیوں نہ پھر اسی گنبد کو گھر بنایا جائے