EN हिंदी
پس مرگ تمنا کون دیکھے | شیح شیری
pas-e-marg-e-tamanna kaun dekhe

غزل

پس مرگ تمنا کون دیکھے

محمد احمد

;

پس مرگ تمنا کون دیکھے
مرے نقش کف پا کون دیکھے

کوئی دیکھے مری آنکھوں میں آ کر
مگر دریا میں صحرا کون دیکھے

اب اس دشت طلب میں کون آئے
سرابوں کا تماشہ کون دیکھے

اگرچہ دامن دل ہے دریدہ
درون نخل تازہ کون دیکھے

بہت مربوط رہتا ہوں میں سب سے
مری بے ربط دنیا کون دیکھے

شمار اشک شمع بزم ممکن
ہمارا دل پگھلتا کون دیکھے

میں کیا دیکھوں کہ تم آئے ہو ملنے
کھلی آنکھوں سے سپنا کون دیکھے

میں جیسا ہوں میں ویسا تو نہیں ہوں
مگر جیسا ہوں ویسا کون دیکھے