پس مرگ تمنا کون دیکھے
مرے نقش کف پا کون دیکھے
کوئی دیکھے مری آنکھوں میں آ کر
مگر دریا میں صحرا کون دیکھے
اب اس دشت طلب میں کون آئے
سرابوں کا تماشہ کون دیکھے
اگرچہ دامن دل ہے دریدہ
درون نخل تازہ کون دیکھے
بہت مربوط رہتا ہوں میں سب سے
مری بے ربط دنیا کون دیکھے
شمار اشک شمع بزم ممکن
ہمارا دل پگھلتا کون دیکھے
میں کیا دیکھوں کہ تم آئے ہو ملنے
کھلی آنکھوں سے سپنا کون دیکھے
میں جیسا ہوں میں ویسا تو نہیں ہوں
مگر جیسا ہوں ویسا کون دیکھے
غزل
پس مرگ تمنا کون دیکھے
محمد احمد