پریوں ایسا روپ ہے جس کا لڑکوں ایسا ناؤں
سارے دھندے چھوڑ چھاڑ کے چلیے اس کے گاؤں
پکی سڑکوں والے شہر میں کس سے ملنے جائیں
ہولے سے بھی پاؤں پڑے تو بج اٹھتی ہیں کھڑاؤں
آتے ہیں کھلتا دروازہ دیکھ کے رک جاتے ہیں
دل پر نقش بٹھا جاتے ہیں یہی ٹھٹکتے پاؤں
پیاسا کوا جنگل کے چشمے میں ڈوب مرا
دیوانہ کر دیتی ہے پیڑوں کی مہکتی چھاؤں
ابھی نئی بازی ہوگی پھر سے پتا ڈالیں گے
کوئی بات نہیں جو ہار گئے ہیں پہلا داؤں
غزل
پریوں ایسا روپ ہے جس کا لڑکوں ایسا ناؤں
ظفر اقبال