پرندوں سے درختوں سے کہوں گا
میں تیرا پیار پھولوں سے کہوں گا
بچھڑ کر جا رہی ہو اتنا سوچو
مری جاں کیا میں لوگوں سے کہوں گا
کہو اس سے کہ واپس لوٹ آئے
میں دکھڑا اپنا رستوں سے کہوں گا
اٹھو اٹھ کر اچھالیں تاج شاہی
پریشاں حال بندوں سے کہوں گا
چرا لائیں تری آنکھوں سے نیندیں
میں خوابیدہ نگاہوں سے کہوں گا
کنولؔ کو لا کے دفنائیں وطن میں
وصیت میں یہ بچوں سے کہوں گا
غزل
پرندوں سے درختوں سے کہوں گا
کنول فیروز