پرندے جا چکے ہیں کب کے گھونسلوں کو بھی
بتائے رستہ کوئی ہم مسافروں کو بھی
میں جانتا ہوں کہ اک دن ہمیں بچھڑنا ہے
سنبھال رکھا جبھی تو ہے آنسوؤں کو بھی
ابھی تو دور ہے منزل کہ کاٹنی ہیں ابھی
ملی جو ورثے میں ہیں ان مسافتوں کو بھی
کہاں وہ وقت ہواؤں پہ حکم چلتا تھا
اور اب یہ حال ترستے ہیں آہٹوں کو بھی
عجب ہیں ہم کہ بنانا مکان کچا ہی
اور اہتمام سے گھر لانا بارشوں کو بھی
سبھی لگے ہیں جو پیوند کرنے شاخوں کو
کسی نے دیکھا ہے دیمک زدہ جڑوں کو بھی
غزل
پرندے جا چکے ہیں کب کے گھونسلوں کو بھی
جلیل حیدر لاشاری