پرندے ہوتے اگر ہم ہمارے پر ہوتے
ذرا سی دیر میں اک دوسرے کے گھر ہوتے
بلا سے ہجر کی راتیں طویل تر ہوتیں
مگر نہ وصل کے دن اتنے مختصر ہوتے
ہم اپنے مرکز و محور سے کٹ گئے ورنہ
اس ایک در کے جو ہوتے نہ در بدر ہوتے
تمہاری چاہ میں اتنا تو ہم سے ہو سکتا
تمہاری راہ میں پھولوں بھرا شجر ہوتے
امیر دشت کا سنسان راستہ ہوتا
اور ایک شام کو ہم دونوں ہم سفر ہوتے

غزل
پرندے ہوتے اگر ہم ہمارے پر ہوتے
رؤف امیر