EN हिंदी
پرندے ہوتے اگر ہم ہمارے پر ہوتے | شیح شیری
parinde hote agar hum hamare par hote

غزل

پرندے ہوتے اگر ہم ہمارے پر ہوتے

رؤف امیر

;

پرندے ہوتے اگر ہم ہمارے پر ہوتے
ذرا سی دیر میں اک دوسرے کے گھر ہوتے

بلا سے ہجر کی راتیں طویل تر ہوتیں
مگر نہ وصل کے دن اتنے مختصر ہوتے

ہم اپنے مرکز و محور سے کٹ گئے ورنہ
اس ایک در کے جو ہوتے نہ در بدر ہوتے

تمہاری چاہ میں اتنا تو ہم سے ہو سکتا
تمہاری راہ میں پھولوں بھرا شجر ہوتے

امیر دشت کا سنسان راستہ ہوتا
اور ایک شام کو ہم دونوں ہم سفر ہوتے